دفاع زيارت عاشورة از ابو عبدالله

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللَّهُمَّ خُصَّ أَنْتَ أَوَّلَ ظَالِمٍ بِالل۔ع۔ن۔ مِنِّي وَ ابْدَأْ بِهِ أَوَّلاً ثُمَّ الثَّانِيَ وَ الثَّالِثَ وَ الرَّابِعَ‏ اللَّهُمَّ ال۔ع۔ن۔ يَزِيدَ خَامِساً…

مومنین و مومنات فیس بُک پر موجود ایک سو کالڈ محققین کا ٹولہ ہے جو اپنی ناقص علم کو تحقيق کا جبہ پہنا کرتشیع اور فقہائے تشیع پر اعتراضات اٹھا کر مومنین و مومنات کے اذہان کو منتشر کرتا رہتا ہے جس کی لاتعداد مثالیں ہیں جن کا تذکرہ پھر کسی وقت کروں گا. (ابھی دامنِ وقت میں گنجائش نہیں)

حال ہی میں اسی گروپ کی ایک محترمہ نے مکتبِ اہل بیت کی عظیم الشان زیارت یعنی زیارتِ عاشورا جوکہ آسمان سے نازل کی گئی زیارت ہے یعنی حدیث قدسی ہے اس کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جس میں محترمہ کے اختتامی الفاظ یہ تھے :

“زیارت عاشوراء عربی عبارت کے بارے میں ہمیں کہیں یہ صحیح سند کے ساتھ نہیں ملی. نیز یہ کہ آیمہ اہل بیت ع نے فرمایا ہے کہ ان کا ماننے والا ل ع نت بھیجنے والا, سب و شتم کرنے والا نہیں ہوتا. حضرت علی علیہ السلام کا خطبہ نھج البلاغہ میں موجود ہے جس میں آپ نے اپنے لشکریوں کو حکم دیا ہے کہ لشکر صفین پر ل ع نت نہ کریں.

جنگ جمل کے بعد امام ع نے ام المومنین رض سے ایک ماں کی طرح سلوک کیا اور انتہائ عزت و احترام سے مدینہ روانہ فرمایا. یہ سب حقایق اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ کوئ ایسی عبارت جس میں اصحاب رسول رض پر ل ع ن, سب و شتم کی گئ ہو, الا یزید لع, کسی امام کافرمان نہیں ہو سکتا.”

اور اپنی ناقص تحقیق کا اختتام ان جملوں پر کیا….

” زیارت عاشوراء جس میں ل ع نتیں ہیں بالکل اماموں ع سے ثابت نہیں ہے. امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن کبھی ل ع نت کرنے والا اور بیہودہ گو نہیں ہوتا. “

یہاں ان موصوفہ کے الفاظ پیش کرنا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ مومنین و مومنات اچھی طرح سے دیکھ لیں کہ ان افراد کی مبینہ تحقیقات کا اصل ہدف و مقصد کیا ہے. یعنی مسلماتِ تشیع مطلب دشمنان اہل بیت پر ل ع ن کر کے ان سے برات کا اظہار کرنے سے روکا جا سکے ۔

مومنین و مومنات یاد رکھیں اور میرے ان فقروں کو محفوظ رکھیں کہ زیارت عاشورا، آئینِ تشیع ہے!

آئینِ تشیع مطلب.. زیارت عاشورا منشورِ اہل ولایت ہے جس میں زیارت کرنے والا اپنے مولا سے عہد و پیمان کرتا ہے، جو اس کی روح کو حق و باطل کا فرق سمجھاتی ہے اور اس میں یہ جرات پیدا کرتی ہے کہ وہ ہمیشہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کی حمایت میں رہے گا..

المختصر کہ زیارت عاشورا عزم، ایمان و عمل صالح کا ایک ایسا درس ہے جو ایک نعرے میں ہم ہمیشہ ادا کرتے ہیں.. ہے ہماری درسگاہ.. کربلا کربلا..

مجھ جیسے کم علم کی اتنی اوقات و طاقت نہیں کہ زیارت عاشورا کے عظیم رازوں کو مختصر الفاظ میں بیان کر سکوں، اس کے لیے علماء نے تفاسیر و تشریحات لکھی ہیں اور ہر جہت سے زیارت عاشورا کے رموز کو بیان کیا ہے.

میرا اصل مدعا زیارت عاشورا میں موجود پہلے، دوسرے، تیسرے سمیت دیگر دشمنانِ اہل بیت پر موجود لع نت کی عبارات کو جز متن ثابت کرنا ہے.

مومنین و مومنات یاد رکھیں کہ لع نت اور سَب دو الگ الگ فعل ہیں جس میں لع نت سے مراد کسی سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے اس کی رحمت خدا سے دوری کی استدعا کہلاتی ہے جبکہ سب کرنا، گالی گلوچ کرنا ہے جس سے شریعت میں منع کیا ہے اور لفظ ل عنت اپنے مصدر و مشتقّات کے ساتھ 41 مقامات پر قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے اور ان میں سے بہت سے مقام پر ل۔ع۔ن۔ت کی نسبت خود اللہ کی طرف دی گئی ہے۔ لفظ سبّ یعنی گالی دینا فقط ایک مرتبہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے.

یہاں قرآن سے فقط ایک مثال پیش کر دوں :

سورہ احزاب کی آیت 57 میں ارشاد ہوتا..

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ل۔ع۔ن۔هُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا،

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں ل ع نت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا ہے.

ان صاحبہ کا بالعموم یہ کہنا کہ “امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن کبھی ل ع نت کرنے والا نہیں ہوتا” اس کے عدم اثبات پر قرآن کی یہ واضح نص ملاحظہ فرمائیں جس پر خود اہل سنت کے جلیل القدر مفسر کا قول بھی موجود ہے :

سوره إسراء کی آیت 60 جس میں شجرہ ملعونہ کے الفاظ ہیں اس پر اہل سنت امام طبری لکھتے ہیں :

قوله (والشجرة الملعونة في القرآن … ) ولا اختلاف بين أحد أنه أراد بها بنى أمية

قرآن میں اس قول کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں.

حوالہ : تاريخ طبری، جلد 5، صفحہ 622

تو جن کے مقدسات کے دفاع میں یہ گروہء اتحادی اپنی توانائی خرچ کر رہا ہے خود اسی مکتب کے امام کی جانب سے شجرہ ملعونہ، بنی امیہ ہیں جس میں تیسرے خلیفہ بھی شامل ہیں!

مومنین و مومنات… ل ع ن ت کرنا اللہ کی سیرت ہے اور اُسی کے حکم پر سرکار محمد مصطفیٰ (ص) اور اُن کے اہل بیت علیہم السلام کی سنت ہے جو کہ عین عبادت ہے کیونکہ جس فعل کے کرنے پر اجر و ثواب ذکر ہو وہ مباح نہیں بلکہ مستحب ہوتی ہے اور اکثر جگہوں پر واجب بھی ہو جاتی ہے.

یہاں رک کر میں ان نام نہاد محققین جو اصلاحی نعرے کی آڑ میں عقائدِ تشیع پر حملہ آور ہیں ان سے یہ سوال بھی کروں کہ اگر بالفرض تمہاری بات مان بھی لی جائے کہ یہ لع ن ت کے الفاظ زیارت عاشورا میں ثابت نہیں (جو یقیناً ثابت ہیں اور آگے ثابت کروں گا) تو کیا لاتعداد ایسی احادیثِ معصومین علیہم السلام نہیں جس میں دشمنان پر لع نت کی تاکید موجود ہے؟؟ کیا اب ان سب کا بھی انکار کر کے اتحادی لالی پاپ چوس کر خود کو تقویت دو گے؟؟

تو سب سے پہلے وہ. روایات پیش کر رہا ہوں جو شیعہ و سنی دونوں منابع میں پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہی ہیں… تو اتحاد کا زیادہ ہی بخار چڑھا ہوا ہے تو ان احادیث سے آغاز کرتے ہیں..

رسول اکرم (ص) ارشاد فرماتے ہیں :

شب معراج میں آسمان پر گیا تو میں نے دیکھا کہ جنت کے دروازے پر لکھا ہے۔

لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی حبیب اللہ، الحسن والحسین صفوة اللہ ، فاطمة خیرة اللہ اور ان کے دشمنوں پر ل۔ع۔ن۔ة اللہ.

حوالہ جات :

– تاریخ بغداد، جلد 1، ص259

– تہذیب دمشق، جلد 4، ص 322

– مناقب خوارزمی، ص 302/297

– فرائد السمطین، جلد 2، ص 74/396

– امالی طوسی (رح) ص 355/737

– کشف الغمہ، جلد 1، ص94

– کشف الیقین، ص 445/551

– فضائل ابن شاذان، ص 71

_____

اگلی روایت…

رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا :

جو ہم اہلبیت (ع) سے نفرت کرے گا وہ منافق ہوگا.

نوٹ : یاد رہے کہ منافقین پر خدا نے قرآن میں ل ع نت کی ہے!

حوالہ جات :

– فضائل الصحابہ ابن حنبل، جلد 2، ص 661،1166

– تفسیر درمنثور، جلد 7، ص349

– نقل از ابن عدی ،مناقب ابن شہر آشوب، جلد 3، ص 205

– کشف الغمہ، جلد 1، ص 47 (روایت ابوسعید 1080)

_____

اب اہل سنت منابع سے ایک آخری حدیث پیش کر کے آگے بڑھتا ہوں ورنہ احادیث ہی بیان کرتا رہا تو مقالہ کم کتاب زیادہ بن جانے کا امکان ہے.

رسول اکرم (ص) ارشاد فرماتے ہیں :

چھ افراد ہیں جن پر میری بھی ل ع نت ہے اور خدا کی بھی ل ع نت ہے اور ہر نبی کی ل ع نت ہے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا ، قضا و قدر کا انکار کرنے والا، لوگوں پر زبردستی حاکم بن کر صاحب عزت کو ذلیل اور ذلیلوں کو صاحب عزّت بنانے والا، میری سنت کو ترک کردینے والا، میری عترت کے بارے میں حرام خدا کو حلال بنا لینے والا اور حرمِ خدا کی بے حرمتی کرنے والا.

– مستدرک حاکم، جلد 2، ص572/3940

– المعجم الکبیر، جلد 3، ص 126/2883 (بروایت عبیداللہ بن عبدالرحمان بن عبداللہ بن موہب)

– المعجم الأوسط، جلد 2، ص 186/1667

– شرح الاخبار، جلد 1، ص 494/878 (عائشہ سے روایت)

– خصال صدوق (رح)، 338/41

_____

ہاں جی تو پھر کیا خیال ہے؟؟ اہل سنت سے ان احادیث کی روشنی میں اتحاد ہو جائے؟؟

مزید روایات ایک ایک کر کے ملاحظہ فرمائیں..

رسول اللہ (ص) ارشاد فرماتے ہیں :

جو ہماری عترت سے بغض رکھے وہ م ل ع ون، منافق اور خسارے والا ہے.

حوالہ :

– جامع الاخبار، ص 214/527

_____

عبداللہ بن ميمون سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا :

پانچ افراد ہیں جن پر میری بھی ل۔ع۔ن۔ت ہے اور ہر نبی کی ل۔ع۔ن۔ت ہے، کتاب خدا میں زیادتی کرنے والا، میری سنت کا ترک کرنے والا ، قضائے الہی کا انکار کرنے والا میری عترت کی حرمت کو ضائع کرنے والا، مال غنیمت پر قبضہ کرکے اسے حلال کرلینے والا.

حوالہ :

– الکافی، جلد 2، ص 293/14

_____

اب ذرا وہ حدیث بھی پیش کروں جس میں آقا حسین علیہ السلام نے دوسرے خلیفہ کو جلال میں منبر سے اترنے کا کہا اور پھر خود عمر نے اقرار کیا کہ رسول اللہ (ص) نے کس پر ل ع ن ت کی ہے، ملاحظہ فرمائیں

زید بن علی اپنے والد بزرگوار کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ امام حسین (ع) نے مسجد میں روز جمعہ عمر بن الخطاب کو منبر پر دیکھا تو فرمایا کہ میرے باپ کے منبر پر سے اتر آ.. تو عمر رونے لگے اور کہا فرزند سچ کہتے ہو، یہ تمہارے باپ کا منبر ہے، میرے باپ کا نہیں ہے.

حضرت علی (ع) نے واقعہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ میں نے نہیں سکھایا ہے!

عمر نے کہا یہ سچ ہے، ابوالحسن ! میں آپ کو الزام نہیں دے رہا ہوں، یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے اور آپ کو منبر پر لے جاکر پہلو میں بٹھایا اور خطبہ شروع کیا اور کہا ! ایہا الناس ! میں نے تمہارے پیغمبر (ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ مجھے میری عترت و ذریت کے ذیل میں محفوظ رکھو، جو ان کے ذیل میں مجھے محفوظ رکھے گا خدا اس کی حفاظت کرے گا اور جو ان کے بارے میں مجھے اذیت دے گا اس پر خدا کی ل ع ن ت، خدا کی ل ع نت، خدا کی ل ع نت (تین بار ل ع نت کی)

حوالہ :

– امالی طوسی (رح) ص703/1504

_____

رسول اللہ (ص) ایک طویل روایت میں یہ ارشاد فرماتے ہیں :

…. یا علی (ع) ! ان کینوں سے ہوشیار رہنا جو لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کا اظہار میری موت کے بعد ہوگا، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی بھی ل ع نت ہے اور تمام ل ع نت کرنے والوں کی بھی ل ع نت ہے.

حوالہ جات :

– ینابیع المودہ، ج 3، ص 279/72

– مناقب خوارزمی، 62/31

– امالی طوسی (رح) 351/726

_____

ریان بن شبیب کہتے ہیں کہ میں ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو امام رضا (ع ) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (ع ) نے مجھ سے فرمایا:

– يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ وَ آلِهِ ص فَال۔ع۔ن۔ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ

ترجمہ : اے شبیب کے بیٹے اگر بہشت میں پیغمبر اکرم (ص) اہل بیت کے حجرے میں رہنا چاہتے ہو تو حسین (ع) کے قاتلوں پر لع نت بھیجو..

(روایت طويل ہے تو اس کا یہ جملہ منتخب کیا)

حوالہ :

– شيخ صدوق، الامالى، ص 129 و 130، اعلمى، بيروت، چاپ 5 ، 1400 ق

_____

داؤد بن کثیر کی یہ روایت کہ جس میں امامِ صادق (ع) حکم فرماتے ہیں :

يَا دَاوُدُ ل۔ع۔ن۔ اللَّهُ قَاتِلَ الْحُسَيْنِ ع فَمَا مِنْ عَبْدٍ شَرِبَ الْمَاءَ فَذَكَرَ الْحُسَيْنَ ع وَ ل۔ع۔ن۔ قَاتِلَهُ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَ حَطَّ عَنْهُ مِائَةَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَ رَفَعَ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ دَرَجَةٍ وَ كَأَنَّمَا أَعْتَقَ مِائَةَ أَلْفِ نَسَمَةٍ وَ حَشَرَهُ اللَّهُ

ترجمہ : اے داؤ، اللہ حسین (ع) کے قاتلوں پر لع ن ت بھیجے ،کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جو پانی پیتے وقت حسین (ع) کو یاد نہ کرے اور ان کے قاتلوں پر لع ن ت نہ بھیجے، اس کے لئے اللہ ایک لاکھ ثواب لکھتا ہے اور اس کے ایک لاکھ گناہ بخش دیتا ہے. اس کے لئے ایک لاکھ درجات بلند کرتا ہے، گویا اس نے ایک لاکھ بندے آزاد کئے ہیں اور قیامت کے دن نورانی چہرہ سے محشور ہوگا.

حوالہ :

– ابن قولویه قمی، كامل الزيارات، ص 107، الباب الرابع و الثلاثون ثواب من شرب الماء و ذكر الحسين‏ (ع) و ل۔ع۔ن۔ قاتله، مرتضوی، طبع اول، نجف، 1356ق.

مومنین یاد رکھیں کہ کتاب کامل الزيارات شیعہ منابع میں اہم ترین، معتبر ترین روایات اور دعاؤں کے مجموعے کی حیثیت سے جانی جاتی ہے.

علامہ مجلسی (رح) لکھتے ہیں :

وكتاب كامل الزيارة من الاُصول المعروفة ، وأخذ منه الشيخ في التهذيب وغيره من المحدّثين.

ترجمہ : كتاب كامل الزيارات شیعہ فقہا کے درمیان مشہور اور اصول معتبر میں سے جانی جاتی ہے.

حوالہ :

– بحار الانوار، ج۱، ص۲۷

تو اس کتاب کا تھوڑا تعارف اس لیے کرایا کہ یہ باور کرایا جائے کہ کامل الزيارات میں لع نت کرنے کے اجر و ثواب پر باقاعدہ مکمّل ایک باب “ثواب من شرب الماء و ذكر الحسين‏ (ع) و ل ع ن قاتله” کے نام سے موجود ہے.

_____

احادیث لاتعداد ہیں تو اب یہی توقف کر کے متن زیارت پر آتا ہوں…

زیارت عاشورہ کو اگر ملاحظہ کیا جائے تو انسان کو اطمئنان بلکہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام سے صادر ہوئی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ اطمئنان دلانے والے کافی عوامل اس زیارت میں موجود ہیں پس عدد کے اعتبار سےعوامل کا جمع ہونا تو ان مصادر میں بالکل واضح ہے جن میں یہ زیارت نقل کی گئی ہے اور اس کی نوعیت یہ ہے کہ اس زیارت کو مزارات کی کتابوں میں نقل کیا گیا جو کہ معروف علماء تشیع کی تصانیف ہیں جو کہ تحقیق اور دقتِ نظر اور اپنے فن میں ماہر علماء ہیں جیسے ابن قولویہؒ، کہ انہوں نے اس زیارت کو اپنی کتاب کامل الزیارات میں نقل کیا اور شیخ طوسیؒ نے مصباح المتھجد اور مختصر مصباح میں اس زیارت کو نقل کیا اور شیخ محمد بن المشھدی نے مزار کبیر میں ، سید علی بن طاووس نے اپنی کتاب مصباح الزائر میں ، علامہ حلی نے منھاج المصباح میں، شہید اول نے اپنی کتاب المزار میں ، شیخ ابراہیم کفعمی نے جنت الامان الواقیہ میں اور جنت الامان الباقیہ میں جو کہ مصباح کے نام سے معروف ہے، علامہ مجلسی نے اپنی تین کتابوں میں ، بحار الانوار کی کتاب مزار میں اور تحفۃ الزائر اور زاد المعاد میں اس زیارت کو نقل کیا اور اس کے علاوہ بھی دیگر کتب میں اس زیارت کو نقل کیا گیا۔ اور علمائے متاخرین نے بھی اس زیارت کو اپنے تمام فقرات اور اجزاء کے ساتھ اپنی کتب میں نقل کیا۔ ان تمام علماء کا اس زیارت کو نقل کرنا انسان کو اطمئنان دلاتا ہے کہ یہ زیارت امام معصوم سے وارد ہوئی ہے۔

اسی طرح متن کے اعتبار سے بھی اگر عوامل کو دیکھا جائے تو بالکل واضح ہے کہ یہ زیارت روح ِتولا اور ظالمین اور ظلم سے تبرا اور ل۔ع۔ن۔ پر مشتمل ہے کہ یہ تولا اور تبرا قرآن مجید کی ان بنیادی تعلیمات میں سے ہےجو ہر مسلمان کے نزیک بالکل واضح ہے جیسا کہ میں نے اوپریہ بات ذکر کر دی تھی۔

قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ بے شک جو لوگ اس چیز کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلائل اور ہدایت میں سے نازل کی بعد اس کے کہ ہم نے یہ چیزیں لوگوں کے لئے کتاب میں بیان کر دیں تھیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ بھی ل۔ع۔ن۔ت کرتا ہے اور ل۔ع۔ن۔ت کرنے والے بھی ل۔ع۔ن۔ت کرتے ہیں۔ (بقرہ، آیت 159 )

تو زیارت عاشورا روحِ قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ (ظالمین کے لئے)اللہ کی رحمت سے دوری کی دعا کرنا۔

عربی ادب کے عامل کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو ہر وہ شخص جو ادبی اسلوب کی سمجھ رکھتا ہے اگر وہ زیارت عاشورا کے فقرات اور اس کے سیاق میں تامل کرے تو اسے باخوبی اندازہ ہو جائے گا اس زیارت کا لب و لہجہ دوسری منقول زیارات کہ جن میں بعض کا امام معصوم سے صادر ہونا یقینی طور پر ثابت ہے ، ان کے لب و لہجہ سے مناسبت رکھتا ہے جیسے زیارت وارثہ، زیارت عرفہ، زیارت نصف شعبان وغیرہ اور اس زیارت کا اسلوب امام محمد باقر علیہ السلام کی دعاؤں اور ان کے تربیتی کلمات کے ساتھ کاملاً منسجم ہے ۔

ان تمام عوامل کا زیارت عاشورا میں یک جا جمع ہونا ایک منشائے عقلائی ہے اس بات کے لئے کہ انسان کو وثوق اور اطمئنان حاصل ہو جائے کہ یہ زیارت امام محمد باقر علیہ السلام سے صادر ہوئی ہے۔

دوسرا نقطہ اور وہ یہ کہ اگر ہم ان تمام باتوں سے چشم پوشی کریں جو اَب تک ذکر ہوئیں ہیں اور شیخ طوسی کی مصباح الکبیر کے تمام نسخوں کا مقایسہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ابھی جتنے نسخے اس کتاب کے موجود ہیں ان تمام میں ل۔ع۔ن۔ کے فقرات موجود ہیں جن کو سو دفعہ پڑھنے کا کہا گیا ہے اور سلام کے وہ فقرات بھی موجود ہیں جن کو سو دفعہ پڑھنے کا کہا گیا ہے جبکہ ان دونوں فقروں (ل۔ع۔ن۔ و سلام)کو ابن قولویہ نے کامل الزیارات میں بھی نقل کیا گیا جہاں انہوں نے زیارت عاشورا نقل کی اور ابن قولویہ سے متاخر علماء نے لی کرانہی فقرات کو زیارت میں نقل کیا ہے ۔

جہاں تک عاشورہ کی معروف زیارت کا تعلق ہے جس کا ذکر شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں کیا ہے، اس کا تذکرہ مصباح الشیخ کے متعدد معتبر نسخوں میں کیا گیا ہے۔

ان میں شیخ طوسی کے زمانے کا ایک پرانا نسخہ بھی ہے جو سید بروجردی کے کتب خانے میں موجود ہے اور اس میں مذکورہ بالال۔ع۔ن۔ کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ جس میں مولی احمد تونی کی نقل اور ابن ابی جود کا نسخہ جو مصنف کی نقل تک جاتا ہے۔

اور اسی میں سید ابن طاؤس کی نقل بھی شامل ہے، جسے انہوں نے اپنی کتاب مصباح الزائر میں نقل کیا ہے، جیسا کہ وہ واضح طور پر خودتسلیم کرتے ہیں کہ اس میں مذکورہ بالا ل۔ع۔ن۔ بھی شامل ہے۔

دوسری طرف، مصباح الكبير کے نسخوں میں سے ایک نسخہ مسخ شدہ ہے، اور یہ امام رضاؑ کی رضويہ لائبریری میں موجود ہے اور اسے (دورستی) کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کہ 502 قمری ہجری کا ہے۔

اس نسخے پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ نقل کرنے کے دوران مذکورہ ل۔ع۔ن۔ کو یا تو حذف کر دیا گیا تھا یا اس کی جگہ کوئی اور عبارات لکھ دی گئی تھیں ، چونکہ اس میں جو کچھ ملتا ہے وہ یہ ہے (اللهم خص أنت أول ظالم بالل۔ع۔ن۔ مني وابدأ به جميع الظالمين لهم).

ایسے افراد جو عربی لغت و اسلوب کے ساتھ تھوڑا سا غور و فکر اور تجربہ رکھتے ہیں ان کے لیے اس فقرے کے الفاظ کی عدم مطابقت ومتناسب ہونا بالکل واضح ہے.!

فقروں کا آغاز اس قول (اللهم خص) سے ہے۔ اس کا قول (وابدأ به) متناسب ہے، سوائے اس کے کہ اس کے بعد (جميع الظالمين) کا ذکر کیا ہے اور فعل اور اس کے بعد آنے والے فعل میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے، اس لیے کہ فعل (ابدأ) اگر اس کے ساتھ زیادتی ہو۔

یہ خیال کرتے ہوئے کہ فعل (ابدأ) اگر با کے ساتھ ہو تو اس کا تقاضا ہے کہ شے متعدد ہو اور فعل کا تعلق پہلے ایک سے اور پھر دوسرے سے ہواور چونکہ یہاں فعل اس قول (جميع الظالمين) سے متعلق ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ مفعول نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک میں تمام افراد شامل ہیں، لہذا شروع کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔

تو جو اوپر بیان ہوا اس میں اضافہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ شیخ طوسی کے زمانے سے پہلے کسی نے بھی ان فقرات (اللهم خص أن أول ظالم بالل۔ع۔ن۔ مني…) پر اعتراض نہیں کیا۔جیسا کہ سید ابن طاؤس کہ جنہوں نے شیخ طوسی کی کتاب سے اس زیارت کو نقل کیا ہےاور یہ بات لکھی کہ :

هذه الرواية نقلناها بإسنادها من المصباح الكبير, وهو مقابل بخط مصنفه رحمه الله

ترجمہ : ہم نے اس روایت کو مصباح الکبیر سے پوری سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور جو ہمارے پاس مصباح الکبیر کا نسخہ ہے وہ شیخ طوسی کے لکھے خطی نسخے سے جانچا جا چکا ہے۔

چلیں اب زیارت عاشورا کی سند کو صاحبِ شفاء الصدور فی شرح زیارۃ العاشورہ حاج میرزا ابوالفضل طہرانی کے توسط سے پیش کرتا ہوں کہ جن کے بارے میں شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب ’’الکنی والالقاب‘‘ میں فرمایا ہے:

“میرزا ابوالفضل عالم، فاضل، فقیہ، اصولی، متکلم، عارف بالحکمۃ، ریاضی، سیرت و تاریخ سے باخبر، ادیب، شاعر، جن کی وفات ۱۳۱۶ھ ق تہران میں ہوئی اور حضرت شاہ عبدالعظیم میں صحن امام زادہ حمزہ میں اپنے والد ماجد کے مقبرہ میں سپرد لحد کئے گئے”

میرزا ابوالفضل تہرانی فرماتے ہیں میرے نزدیک جو سب سے عزیز اور محبوب طریق سند ہے اسی پر اکتفا کرتے ہوئے حدیث زیارت عاشورا نقل کرتا ہوں۔

حَدَّثَنِیْ بِالْاِجَازَۃ۔۔الخ۔۔

مجھ سے شیخ الفقیہ السعید الثقہ، علامۂ عصر الشیخ محمد حسین بن محمد ھاشم الکاظمی نے اور انھوں نے شیخنا الامام الاعظم آیۃ اللہ العظمیٰ مرتضیٰ بن محمد امیر الجابری الانصاری سے اور انھوں نے شیخ فقیہ محقق مدقق، ثقۃ الحاج ملا احمد النراقی سے۔

اور انھوں نے سید الامۃ، کاشف الغمہ، صاحب کرامات الباھرۃ و المعجزات القاھرہ السیدمحمد مہدی الطباطبائی معروف بہ علامہ بحر العلوم سے۔

اور انھوں نے شیخ اعظم، استاد اکبر، مدیر الحدیث مولانا الاعظم محمد باقر البہبہانی معروف بہ آقائے وحید بہبہانی سے۔

اور انھوں نے اپنے پدر بزرگوار الشیخ الافضل صاحب تقدس و زھد، محمد اکمل اصفہانی سے اور انھوں نے اپنے ماموں مروج آثار الائمۃ الاطہار غواص’’ بحارالانوار‘‘ مجدد مذھب مولانا محمد باقر المعروف علامہ مجلسی سے۔

اور انھوں نے اپنے والد گرامی شیخ الفقیہ محقق دقیق، صاحب تقویٰ و زھد علامہ محمد تقی المجلسی اول سے۔

اور انھوں نے شیخ الاسلام والمسلمین اکمل الحکماء والمتکلمین افضل الفقہاء والمحدثین بہاء الملۃ والدین محمد بن حسین عاملی معروف بہ شیخ بہائی سے۔

اور انھوں نے اپنے والد بزرگوار العالم العلامۃ والفاضل الفہامۃ شیخ الفقہاء والمحققین حسین بن عبد الصمد العاملی سے۔

اور انھوں نے شیخ الامام خاتم فقہاء الاسلام، لسان المتقدمین، ترجمان المتاخرین الشہید زین الدین بن علی العاملی معروف بہ شہید ثانی سے۔

اور انھوں نے شیخ فاضل احمد بن محمد بن خاتون العاملی سے۔

اور انھوں نے تاج الشریعہ فخر الشیعۃ شیخنا الاعلم علی بن عبد العالی الکرکی معروف بہ محقق ثانی سے۔

اور انھوں (محقق ثانیؒ) نے فقیہ، محدث ثقۃ علی بن ھلال الجزائری سے اور انھوں نے قدوۃ الزاہدین، عمدۃ الفقہاء الراشدین، حلیۃ المحدثین شیخنا احمد بن فہد حلی سے۔

اور شیخ احمد بن فہد حلی نے شیخ فقیہ، فاضل زین الدین علی بن الخازن سے۔

اور زین الدین علی بن خازن نے برھان علماء الاسلام، استاد فقہاء الانام، صاحب الایات الباھرۃ والکرامات الطاھرۃ، شیخنا الافضل والاقدم شمس الدین محمد بن مکی معروف بہ شہید اول سے۔

اور شہید اول نے فخر المحققین استاد الفقہاوالمحدثین، حکیم، متکلم، الامام فخرالدین ابوطالب محمد بن حسن بن یوسف حلی سے

اور فخر الدین ابوطالب محمد بن حسن نے اپنے والد گرامی علامۃ المشارق والمغارب آیۃ اللہ فی العالمین وسیف المسلول علیٰ رقاب المخالفین، جن کی ذات گرامی تما م عالم اسلام میں بلا تفریق مذھب و ملۃ محتاج تعارف نہیں ہے، مراد ابو منصور جمال الدین حسن بن یوسف الحلی سے۔

اور علامہ حلی نے شیخ الامام مؤ سس فقہ والاصول ابوالقاسم نجم الدین جعفر بن سعید الحلی معروف بہ محقق اول سے

اور محقق حلی نے سید فقیہ، محدث، ادیب فخار بن معد الموسوی الحائری سے۔

اور انھوں نے عالم، عامل، محدث فقیہ شاذان بن جبرئیل القمی سے اور شاذان بن جبرئیل قمی نے شیخ، ثقہ، فقیہ عماد الدین محمد بن ابوالقاسم الطبری سے۔

اور انہوں نے شیخ الامام، مدار الشریعۃ، ابو علی حسن بن شیخ معروف بہ مفید ثانی سے۔

اور مفید ثانی یعنی فرزند شیخ طوسی نے اپنے والد گرامی معلم فضلاء المحققین اور مربی فقہاء المحصلین، تالیفات و تصنیفات کے میدان کے شہسوار شیخ الطائفہ، رئیس المذھب ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی سےنقل فرمایا۔اور شیخ طوسی اپنی گرانقدر کتاب ’’مصباح المتہجد‘‘ میں اس طرح فرماتے ہیں:

’’محمد بن اسمعیل بن بزیع نے اور انھوں نے صالح بن عُقْبہ سے اور انھوں نے اپنے والد گرامی عقبہ بن قیس بن سمعان سے اور انھوں نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے ۔۔۔ الخ (پھر وہ پوری روایت جو ہر زیارت کی کتاب میں موجود ہے )

خیر مومنین ۔۔ یہاں پر زیارت عاشورا کی سند اور اس کے خطی نسخوں کی بحث کو تمام کرتا ہوں کیونکہ تحریر بہت طول پکڑ چکی ۔۔

آسمانِ تشیع کے عظیم ستارے یعنی اب جلیل القدر فقہاء و مجتہدین کی آراء بھی جان لیتے ہیں…

جب آیت اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزی سے زیارت عاشورا کی سند و صحت کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:

وجميع مضامينها ومحتوياتها موجودة في الروايات الشريفة، زيارة عاشوراء هي زيارة مشهورة وثابتة ولم يقع فيها أي تحريف أو تزوير، وهذا الاختلاف بين النسخ لا يُسمى تزويرا، لقد اطلعت على نسخة ثابتة من جهة المتن والسند، وزمانها متصل بزمان الشيخ الطوسي (قدس سره الشريف) وقد اشتملت على جميع فقرات الزيارة، وعليه فلا شك في صحة الزيارة. وعمل العلماء الكبار وكون زيارة عاشوراء مجربة كافٍ في إثباتها. لا تستمعوا إلى تشكيكات التي يطلقها بعض من أبعده الله عن لذة العبادة

ترجمہ : اور اس کے تمام مضامین اور مشمولات روایاتِ شریفہ میں موجود ہیں، زیارتِ عاشورا ایک معروف اور ثابت شدہ زیارت ہے، اس میں کوئی تحریف یا جعلسازی نہیں ہوئی اور نسخوں کے درمیان جو متن کا اختلاف ہےاس کو جعلسازی نہیں کہا جاتا، کیونکہ میں نے خود اس نسخے کو دیکھا ہے جو سند اور متن میں شیخ طوسیؒ کے زمانے سے متعلق ہے۔ اس میں زیارت کے تمام فقرات شامل تھے، اس لیے اس کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے اور ہمارے کبار علماء کا عمل بھی اس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ تو ایسے افراد پر کان نہ دھریں جو اس کو مشکوک کہتے ہیں کہ خدا نے انہیں اپنی لذتِ عبادت سے دور کردیا ہے۔

حوالہ : زيارة عاشوراء فوق الشبهات التبريزي، الميرزا جواد الجزء : 1 صفحة : 359

ایک اور جگہ جواب میں فرماتے ہیں :

( 282 ) هل صحيح أنه صدر ضمن فتاوي سماحتكم أنه لا تجوز الصلاة خلف إمام لا يعترف بزيارة عاشوراء أو خلف إمام يدافع عن شخص ينكر مظلومية الزهراء عليها السلام ؟؟

الجواب:

بسمه تعالى نعم هذا صحيح لأن إنكار ما هو مسلم عند الطائفة يخرج الإنسان عن صلاحيته لإمامة الجماعة .

خلاصہ ۔۔ منكر زيارت عاشورا و مظلومیت حضرت زهر اؑکے پیچھے نماز جماعت صحیح نهیں هے۔

حوالہ : صراط النجاة / ج 10/ص 90

آیت اللہ فاضل لنکرانی سے زیارت عاشورا کی صحت پر سوا ل اور ان کا جواب ۔۔۔

سوال : هل زيارة عاشوراء معتبرة الاسناد؟ وهل الل۔ع۔ن۔ الوارد في ذليها من أصل الرواية أم مندسة فيها؟ وهل الل۔ع۔ن۔ مخالف لروح الاسلام؟

جواب : نعم زيارة العاشور معتبرة قطعاً وصدرت من المعصوم(عليه السلام) ووصلت إلينا بالطرق المعتبرة مثل کامل الزيارات لابن قولويه والمزار الکبير والمصباح للشيخ الطوسي وغيرها.

والل۔ع۔ن۔ المذکور وارد فيها وليس بموضوع کما ان ل۔ع۔ن۔ اعداء الدين موافق لروح الاسلام وجزء من فروع الدين.

وقد ورد الل۔ع۔ن۔ في كتاب الله العظيم:

مثل قوله عز وجل « رَبَّنَآ ءَاتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ ٱلْعَذَابِ وَٱل۔ع۔ن۔هُمْ ل۔ع۔ن۔ۭا كَبِيرًۭا» (احزاب: 68)،

وقوله سبحانه: «فَل۔ع۔ن۔ةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلْكَٰافِرِينَ» (سورة البقرة: 89)،

وقوله تبارك وتعالى: «إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَمَاتُوا۟ وَهُمْ كُفَّارٌ أُو۟لَٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ ل۔ع۔ن۔ةُ ٱللَّهِ» (سورة البقرة: 161)

وغيرها من الايات.

خلاصہ جواب ۔۔ جی ہاں زیارت عاشوراقطعی طور پرمعتبر ہے اوراسے معصومؑ نے جاری کیا ہے اور معتبر طریقوں سے ہم تک پہنچی ہے جیسے ابن قولويه کی کامل الزیارات، مزار الکبیر اور شیخ طوسی کی المصباح وغیرہ

اور (زیارت) میں جو ل۔ع۔ن۔ت کے فقرے ہیں وہ مذکور ہیں جو بالکل موضوع (گڑھے ہوئے ) نہیں ہیں اور دین کے دشمنوں پر ل۔ع۔ن۔ت بھیجنا بھی اسلام کی روح کے مطابق ہے اور یہ فروع دین کا جز ہے۔

حوالہ : سؤال وجواب مكتب اية الله فاضل لنكراني، 23/8/1430

جب ہمارے فقہاء سے سوال ہواکہ زیارت عاشورا کی صحت اور اس میں یہ جملے اللهم خص انت اول ظالم … جز زیارت ہیں یا نہیں تو فقہا نے کیا فرمایا ، ملاحظہ فرمائیں:

آیة الله سید صادق روحانی کا جواب :

سند زیارت عاشورا قوی و معتبرو للفقهاء فی بیان المراد من اول ظالم الخ معان لم یرد نص فیه و الرابع ایضاً من اجزاء الزیاره و الله العالم بما زاد علی ذالک

ترجمہ : زیارت عاشورا کی سند مضبوط و معتبر ہے اور فقہاء کے درمیان اس ل۔ع۔ن۔ کے جملے کہ اول ظالم سے لیکر آخر تک سے کون مراد ہیں کے مخلتف معانی ہیں کہ جن کے متعلق نص وارد نہیں ہوئی لیکن یہ جملے زیارت کے اجزاء میں سے ہیں اور و الرابع بھی زیارت کا جزء ہے اور اس سے جو زیادہ ہے اس کے بارے میں اللہ جانتا ہے۔

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کا جواب:

در بسیاری از کتب زیارت , این جمله جزو زیارت عاشورا شمرده شده است

ترجمہ : بہت سی کتبِ زیارت میں یہ جملہ زیارت عاشوراکا جز ہے ۔

آیت الله شاهرودی کا جواب :

عبارت مذکور جزو زیارت عاشورا می باشد و در نسخ قدیمتر نیزوارد شده است

ترجمہ : مذکورہ جملہ زیارت عاشورہ کا جزہے اور پرانے نسخہ میں بھی شامل ہے۔

آیت الله مظاهری کا جواب :

زیارت عاشورا از زیارات معتبر است واین جمله در کتابهای معتبر نظیر کامل الزیارات موجوداست.

ترجمہ : زیارتِ عاشورامعتبر زیارتوں میں سے ہے اور یہ جملہ کامل الزیارات جیسی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔

آیت الله صافی گلپایگانی کا جواب :

زیارت عاشورا معروفه با صد ل۔ع۔ن۔ وصد سلام در بین علمای بزرگ و مومنین و صلحاء خلفا عن سلف اهل بیت سلام الله علیهم اجمعین همیشه به آن اهتمام داشته اند و بر آن تأکید شده است و سند آن نیز معتبر است و متن زیارت همان است که در مفاتیح الجنان آمده است

ترجمہ : عاشورا کی زیارت سو ل۔ع۔ن۔توں اور سو سلاموں کے ساتھ ایک معروف زیارت ہے جو عظیم علماء، مومنین اور خلفاء اہل بیت علیہم السلام میں معروف رہی ہےاور انہوں نے ہمیشہ اس کی طرف توجہ دی اور تاکید کی ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے اور زیارت کا متن وہی ہے جو مفاتیح الجنان میں آیا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ سید سیستانی دام ظلہ الوارف ایک استفتاء میں فرماتے ہیں :

الل۔ع۔ن۔ مأة مرة و السلام مأة مرة مما ورد في نص زيارة العاشورة فالزيارة العاشورة الكاملة فيها مأة ل۔ع۔ن۔ و مأة سلام ، نعم يجوز الاقتصار على الل۔ع۔ن۔ الواحد و السلام الواحد برجاء المطلوبية

ترجمہ :متنِ زیارت عاشورا میں سو مرتبہ ل۔ع۔ن۔ت اور سو مرتبہ سلام کا ذکر آیا ہے، چنانچہ عاشورا کی مکمل زیارت میں سو ل۔ع۔ن۔تیں اور ایک سو سلام شامل ہیں۔ اور اگر اسے اختصار کے ساتھ یعنی ایک بار ل۔ع۔ن۔ اور ایک بار سلام پڑھیں تو اسے رجائے مطلوبیت کی نیت سے پڑھنا ہوگا۔

یعنی سید سیستانی کے نزدیک بھی یہ زیارت سو ل۔ع۔ن۔ و سو سلام کے ساتھ معتبر ہے تبھی استفتاء میں ایک بار ل۔ع۔ن۔ و سلام پر رجائے مطلوب کا کہا !

اب آخر میں آیت اللہ العظمی الحاج حافظ بشیر حسین نجفی دام ظلہ الوارف سے ایک استفتاء ملاحظہ فرمائیں۔۔

سوال: سند، متن اور مضمون کے اعتبار سے زیارت عاشورہ کی کیا حیثیت ہے اور کیا یہ بات درست ہے کہ ” زیارت عاشورہ میں موجود یہ فقرہ “اللهم ال۔ع۔ن۔ الاول والثانی ۔۔۔۔ تا آخر “زیارت کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس کو کسی نے خود ہی وضع کیا ہے اور اسی طرح کچھ اور جملے بھی ہیں جو اصل زیارت میں داخل کئے گئے ہیں اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم اس زیارت کے پرانے نسخوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں یہ جملے نظر نہیں آتے بلکہ یہ جملے بعض افراد نے حاشیہ میں لکھے ہیں اور نہ ہی ابن طاؤس نے شیخ طوسی سے نقل کرتے ہوئے ان جملوں کو زیارت میں لکھا ہے اور اسی طرح بزرگ علمائے قدماء نے بھی ان جملوں کو زیارت میں ذکر نہیں کیا۔

جواب : جن جملوں کا آپ نے ذکر کیا ہے ان جملوں سمیت یہ زیارت میرے نزدیک سند اور مضمون کے اعتبار سے صحیح ہے۔ میں اس زیارت کو پابندی سے ہمیشہ پڑھتا ہوں اور جن جملوں کی آپ بات کر رہے ہیں ان کو میں نے خود ” شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتهجد کے پرانے نسخے میں لکھا ہوا دیکھا ہے اور وہ نسخے کہ جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ ان جملوں سے خالی ہے اس کی تاریخ کے مقابلے میں اس نسخے کی تاریخ بہت پرانی ہے کہ جس میں میں نے خود ان جملوں کو دیکھا اور پڑھا ہے۔اسی طرح محمد بن قولویہ کہ جن کا زمانہ شیخ طوسی سے بھی بہت پہلے کا ہے ان کی کتاب کامل الزیارات میں بھی زیارت عاشورہ کے اندر یہ جملے موجود ہیں۔ محمد بن قولویہ کی وفات ۳۶۸ ہجری میں ہوئی جب کہ شیخ طوسی نے ۴۶۰ ہجری میں اس دنیا کو خیر باد کہا اور سید ابن طاؤس کی تاریخ وفات ۶۶۹ ہجری ہے۔

ایک اور استفتاء میں فرماتے ہیں :

سوال:زیارت عاشورہ میں بعض سطروں کو سو سو دفعہ پڑھنا ہوتا ہے کیا یہ ضروری ہے کہ جب بھی زیارت پڑھی جائے تو ان سطروں کو سو دفعہ پڑھنا چاہیے، اس کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:بسمہ سبحانہ اگر ان سطروں کو سو دفعہ نہ پڑھا گیا تو زیارت ناقص ہو گی۔ واللہ العالم

http://www.alnajafy.com/list/mainnews-7-3-491-43.html

اب یہاں تحریر کو ان جملوں پر اختتام کرتا ہوں کہ زیارت عاشورا اور اس کے بعد پڑھی جانے والی دعا جو دعائے علقمہ کے نام سے مشہورہے یہ دونوں ایسی روشن حقیقتیں ہیں جن کا انکار ہرگز ہرگز نہیں کیا جاسکتاہے۔ معتبر اور قدیم ترین شیعہ کتابوں میں اس کا وجود ہے اورعلماء، محدثین، متکلمین، فقہاء و مجتہدین و مراجع تقلید عظام جن پر اوپر بحث کی گئی ہے انہوں نے اس کی حفاظت اور اہتمام کے لئے مخصوص انتظام کیا ہے اور مراجع تقلید نے اس کے نقل کرنے کی اجازت دینے میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے۔

مومنین اس تحریر کو اپنے پاس ضرور محفوظ رکھیں اورجتنا ممکن ہو اس کو دیگر مومنین سے شئر کر کے ہر اس سقیفائی سوچ کے مبینہ شیعہ ظاہر کرنےوالے افراد کی ناک رگڑ دیں جو عقائد تشیع پر حملہ آور ہیں ۔

جنابِ سیدہ (س) اس حقیر غلام کی کاوش کو قبول کریں.

والسلام #ابوعبداللہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *