مسجدِ اقصیٰ کہاں ہے

سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
پاک وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام یعنی(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی یعنی (بیت المقدس) تک ۔جس کا ماحول برکت والا ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں اور یقیناً اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔

تقریبا تمام مکاتب فکر کے مترجمین مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ مسجدالحرام سے مراد خانہ کعبہ والی مسجد ہے اور مسجد اقصیٰ سے مراد یروشلم میں موجود جو مسجد ہے جسے بیت المقدس بھی کہتے ہیں ۔ایک طویل عرصے کے بعد ایک مذہبی سکالر جن کا نام محمد شیخ ہے نے دور حاضر میں ایک استدلال پیش کیا ہے جس نے حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے لیکن اُن کے استدلال پر کافی سوالیہ نشان بھی ہیں ۔ پہلے ہم یہاں محمد شیخ کا اِستدلال بیان کریں گے اور بعد میں اس پر اٹھنے والے سوالات اور پھر آخر میں اُن کے جوابات عرض کرینگے

نمبر١

اُنہوں نے بائیبل کی سورہ 66 کی آیت نمبر 20 کا حوالہ دیتے ہوکہا کہ اللّٰہ بائیبل مقدس کی اِن آیات میں فرماتا ہے کہ (میں تمہارے بھائیوں کو گھوڑوں خچروں رٙتھوں اور اونٹنیوں پر بٹھا کر میرے ہدیہ کے لیے یروشلم میں کوہِ مقدس پر لاونگا۔

جیسے بنی اسرائیل پاکیزہ برتنوں میں ہدیہ لاتے ہیں ۔ اور اُن کے زبیحے میرے مذبح پر قبول ہونگے۔اور میرا گھر سب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا)۔ آپ کسی یہودی یا عیسائی سے پوچھیں کہ جو بائبل کی ان مذکورہ آیات میں لکھا ہے کیا آپ وہ سب کچھ یروشلم میں زمین پر کہیں دیکھا سکتے ہیں۔

جبکہ موجودہ یروشلم میں نہ کوئی ایسا مذبح خانہ ہے جہاں لوگ آکر اللّٰہ کی راہ میں جانور ذبح کرتے ہوں نہ ہر سال وہاں دور نزدیک سے چھوٹی بڑی سواریوں پر لوگ جاتے ہیں۔جبکہ یہ تمام نشانیاں تو مکہ میں ہیں ۔کوہ مقدس مقامِ عرفات ہے مذبح خانہ منیٰ میں ہے اور تمام انسانوں کے لیے عبادت گاہ خانہ کعبہ ہے ۔اور ہر سال اٙقصائے عالم سے لوگ حج کے لیے مکہ آتے ہیں۔ تو بائبل میں دی گئی نشانیوں کے حساب سے تو بیت المقدس(مقدس گھر) واقعتاً یروشلم میں نہیں مکہ میں ہے۔یہاں پر شیخ محمد کی بات ختم ہوئی۔اور یہ بات درست بھی ہے ۔

نمبر٢

۔ لیکن مسجد اقصٰی کے بارے میں شیخ محمد کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد مدینة المنورہ میں موجود مسجد نبوی۔ شیخ محمد نے سورۃ الاسراء کی پہلی آیت میں سے اٙپنے مطلب کے دو الفاظ لیے ہیں اور باقی آیت کے مفہوم کو چھوڑ دیا جو سامعین کے ذہنوں میں اصل حقیقت کی طرف رہنمائی کر سکتا تھا۔

وہ دو پوائنٹ یہ ہیں نمبر ایک یہ کہ ارشاد خداوندی ہے (بارکنا حولہ) مسجد اقصٰی کی نشانی یہ ہے کہ اُسکا ماحول برکت والا ہے چونکہ مسجد نبوی کا ماحول بھی برکت والا ہے لہذا مسجد اقصیٰ یہی ہے ۔اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب حضورؐ نے مکہ سے مسجد نبوی کی طرف ہجرت کی تو رات کا وقت تھا ۔اس میں تو شک نہیں کہ مسجد نبوی کا ماحول بالکل مسجد حرام کی طرح ہی برکت والا ہے ۔لیکن اِن کے استدلال سے حضورؐ کے معراج آسمانی کا انکار ہوتا ہے۔

نمبر٣

اور سورہ الاسراء کے باقی ماندہ نکات کیا ہیں جو حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ ان میں کا پہلا نقطہ ہے۔ سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا۔ (پاک ہے وہ زات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو) جب کوئی کسی مقام کی سیر کے لیے جاتا ہے تو اس کی واپسی کنفرم ہوتی ہے۔

مستقل سکونت اختیار کرنا اگر مقصود ہو تو اُس کو سیر نہیں ہجرت کہتے ہیں۔چونکہ حضورؐ مکہ سے مدینہ سیر کے لیے نہیں مستقل سکونت کی غرض سے گئے تھے لہذا سورة الاسریٰ میں جس مسجد اقصیٰ تک کی سیر کا زکر ہے اس سے مراد مسجدِ نبوی نہیں ہوسکتی۔

دوسری بات کہ مسجد نبوی حضورؐ نے وہاں خود تعمیر کروائی تھی جب آپ تشریف لے گئے تھے تو اسوقت وہاں کوئی مسجد نہیں تھی لہذا اس حوالے سے بھی شیخ محمد کا مسجد نبوی کو مسجد اقصیٰ کہنا درست نہیں۔ دوسرا نکتہ ہے (مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔مسجد الحرام میں تو کسی کو شک نہیں کہ وہ مکہ میں موجود ہے اور حضورؐ نے وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

لیکن مسجد نبوی کو مسجد الاقصیٰ کس حوالے سے تسلیم کیا جائے ۔جبکہ لفظِ اقصیٰ کا معنی ہے دوسرا کنارہ اور یہ کسی سمندر دریا شہر یا کسی ملک کا دوسرا کنارا نہیں بلکہ کائنات کا دوسرا کنارہ ۔آپ نے اپنے روزمرہ کی گفتگو میں اقصائے عالم لفظ سنا ہوگا ۔ جو بےحساب فاصلے کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

جبکہ مسجد نبوی اور مسجد الحرام کے درمیان تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر کا سفر ہے اور یہ دونوں مقام ایک ہی ملک میں موجود ہیں ۔ نقطہ نمبر ٣ مسجد نبوی کو مسجد اقصیٰ ماننے کی تیسری وجہ جو سکالر موصوف نے بتائی وہ یہ ہے کہ ( بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ) کے اس کا ماحول برکت والا ہے ۔لیکن جناب یہ اس وقت کی بات ہے جب اللّٰہ نے حضور کو جس مقام کی سیر کروائی تو اس کا ماحول پہلے سے برکت والا تھا۔ جبکہ مدینہ منورہ میں برکت کا ماحول حضورِِؐ کے دم قدم سے بنا ہے۔

جب حضورؐ یہاں تشریف لائے تھے تو اسوقت تک اسکے ماحول میں برکت تو کیا نام بھی مدینہ منورہ نہیں تھا یثرب کہلاتا تھا ۔وہاں جسکو بھی جو عزت نصیب ہوئی تو حضورؐ کی نسبت سے ۔ چوتھا اور آخری نکتہ ۔لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ- سیر کرانے کا مقصد حضورؐ کو وہاں اپنی کچھ خاص نشانیاں دیکھانا تھا جبکہ حضورؐ جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا بلکہ وہاں حضورؐ بذاتِ خود آیت اللّٰہِ لاعُظمیٰ تھے۔

لہذا ہر طرح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اٙقصیٰ سے مراد نہ شیخ محمد کے مطابق مسجدِ نبوی ہے اور نہ یہودیوں اور مسلمانوں کے مشترکہ عقیدے کے مطابق یروشلم والی مسجد بیت المقدس ہے ۔ بلکہ یہ مسجد حضورؐ کے معراج کے سفر کی آخری منزل تھی۔جس کی دلیل یہ ہے کہ اللّٰہ نے حضورؐ کے سفرِ معراج کے Departure یعنی روانگی کا مقام اور Distination یعنی منزل کو یہ فرما کر واضع کر دیا۔ (مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا) مقامِ روانگی مسجدالحرام اور منزل مسجدِ اقصیٰ۔

اور درمیان کے کسی مقام کو منزل نہیں کہا جا سکتا ۔ لہذا مسجد اقصیٰ نہ یروشلم والی ہے اور نہ بقول شیخ محمد مسجدِ نبوی ہے بلکہ یہ حضورؐ کے معراج کےآخری مقام کعبہ قوسین او اٙدنیٰ کو کہتے ہیں جہاں تک جناب جبرائیلؑ کی بھی رسائی نہیں ۔ یہاں سے حضورؐ کے م واپسی کا سفر شروع ہوا ۔

ذوار مختار حسین عاصم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *