کیا حضرت ابو بکر یار غار ہیں؟ | مبینہ فضیلت کی حقیقت

بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد لله ربّ العالمين، والصّلاة والسلام على نبيّنا محمّد وآله الطيّبين الطاهرين.

مومنین و مومنات ، حقیر کا سلام قبول کریں۔۔

ابتداء تحریر میں ۔۔ گو کہ یہ میرے لیے ممکن نہیں پر آج میں ان سب صاحبانِ ایمان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو مجھ حقیر کے الفاظ کو اپنی زمینِ قلب پر جذب کر کے مجھے اتنہاء سے زیادہ دعائیں دیتے ہیں ، واللہ آپ سب کی دعائیں ہی میرے قلم میں روشنائی کا کام کرتی ہیں ۔ رب الحسین آپ سب کی جائز حاجات کو پورا فرمائے اور بحقِ سیدہ فاطمہ زہراؑ آپ سب کو سلامت رکھے!

تو قارئین کرام ۔۔

آپ سب کو علم ہے کہ تاریخی رہزنوں اور سقیفائی پالتوؤں نے اپنی پوری جان لگا کر اپنی مقدس گائے کے لئے اہل بیتؑ کے مقابلے میں عجیب و غریب فضائل گھڑنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی ۔۔ کبھی شہادتِ رسولؐ کو چھپانے کے لیے اپنی ممی جان کے فضائل سے تاریخ کو تاریک کیا تو کبھی قاتلانِ زہراؑ کو چھپانے کی خاطر دوسرے صاحب کے غلام قنفذ کو بالکل ویسے ہی بلی کا بکرا بنایاجیسے اصل قاتلانِ امام حسینؑ کوبچانے کی غرض سے فقط یزید کو پیش کر دیا گیا۔۔ کبھی عقد ام کلثوم جیسے افسانے لکھ ڈالے ۔۔

انہی مسخ شدہ تاریخ میں ایک داستان ” یارِ غارِ رسولؐ” کی بھی رقم ہے جو فقط ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں!

آج کی تحریر میں اسی پر قلم کو حرکت دے کر حقیقت کے متلاشی ذہنوں میں ارتعاش کو پیدا کرنے کی کوشش ہوگی ۔۔

ویسے اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ ہجرت کی رات رسول اکرمؐ کے ساتھ غار میں ابوبکر ہی تھے تو بھی ان عقل کے اندھوں کو یہ باور کروا دیں گے کہ یہ ان حضرت کی فضیلت نہیں بلکہ پورا قصہ ان کی تکذیب و تحقیر پر دلیل بن رہا ہے، ساتھ یہ بھی ثابت کروں کہ آخر یہ مقدس گائے شبِ ہجرت کو کس کے کھیت میں چر رہی تھی اور کس کے لیے دودھ دے رہی تھی ۔۔

خیر جی ۔۔ یہ بس معمولی سا ابتدائیه ہے اب فل فلیش آپریشن کا آغاز کرتے ہیں .

اس یارِ غار کے افسانے کے جھوٹ ہونے کے لیے فقط ایک ہی بات کافی ہے کہ اہل سنت کی کسی بھی کتاب میں کہیں یہ بات رسول اکرم ؐ سےنقل نہیں ہوئی ہو کہ آپؐ نے ابوبکر کی مدح و فضیلت میں فرمایا ہو کہ یہ میرا یارِ غار تھا!

خیر میں پھر بھی تاریخی قرائن اور اہل سنت روایات سے یہ ثابت کروں گا کہ ابوبکر نے رسولؐ کے ساتھ ہجرت نہیں کی اور نہ ہی یہ حضرت غار میں سرکارِ محمدؐ کے ہمراہ تھے ۔۔

میرے بھائیوں اور بہنوں ۔۔ اگر مدینہ کی طرف ہجرت رسولَ والی اہل سنت روایات ملاحظہ کی جائیں تو سب ایک دوسرے سے بری طرح ٹکراتی ہیں یا یوں کہوں کے ابوبکر کی فضیلت گھڑنے میں یہ سب کام کیے گئے کہ کسی طرح سے بھی پہلی مقدس گائے کو یارِ غار ثابت کروا دیا جائے ۔

کہیں لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ نے رات کو ہجرت کی تو کہیں تاریخی رہزن دن کو ہجرت کروا رہے ہیں، عجیب ۔۔

کوئی کہتا ہے رسول گھر سے نکل کر ابوبکر کے گھر دو بار گئے تو کوئی لکھتا ہے کہ ایک بار تشریف لے گئے ۔ یعنی ایک کی جبری فضیلت کی خاطر پورا واقعہ ہجرت ہی مبہم کر ڈالا ۔۔

تو سب سے پہلے ان تمام مسائل کو عقلی کسوٹی پر پرکھ لیتے ہیں پھر آگے چلتے ہیں۔

ایک بات ابتداء تحریر میں ہی کر دوں کہ یہ عنوان ایک تحریر میں کامل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا ۔تو اختصار کے ساتھ تحریر جامع بھی رہے تو میں ہجرت کی روایات میں سے فقط تین روایات جو کہ اہل سنت کے ہاں صحیح السند ہے اسے پیش کر کے باقی تمام روایات کو رد کروں گا ۔ پھر بچے گا آیت غار کا معاملہ تو اس پر مختصر سی بحث سے یہ ثابت کروں گا کہ یہ آیت ابوبکر کی شان میں نازل ہی نہیں ہوئی اور وہ بھی عامہ کی خاص امی جان کی زبانی یعنی حضرت عائشہ بنت ابو بکر سے ۔۔

کیونکہ اگر آیت پر بحث چھیڑ دی تو قرآنیات کے دقیق اصولوں سے رد پیش کرنا پڑے گا جو کہ عام عوام کے لیے سمجھنا کافی مشکل ہوگا۔ اگر کوئی اہل سنت عالم آ کر اس آیت کو لے کر جرح کا پرچم بلند کر دے تو پھر اس پر اگلی تحریر میں سیر حاصل گفتگو کر کے اسی آیت کو ابوبکر کی مذمت میں ثابت کرکے منہ بند کروا دیا جائے گا۔

میری کوشش ہوگی کہ اگلی تحریر اس پر لکھوں کہ آخر ہجرت کی رات کو یہ ابوبکر نامی حضرت کر کیا رہے تھے ۔۔ مطلب رسول کے خلاف اقدامات ۔۔ صرف اشارہ دے کر یہی چھوڑ رہا ہوں ۔۔

تو قارئین رسول اللہ کوکفار مکہ کی جانب سے اتنا شدید جانی خطرہ تھا کہ تمام اہل سنت علماء نے لکھا کہ جبریلؑ کے ذریعے اللہ نےرسول کو کفار کے ارادے سے آگاہ کیا اور خدا نے حکم دیا کہ آپ مدینہ کی طرف ہجرت کر جائیں ۔

مجھے کوئی صاحب عقل انسان یہ بتائے کہ جب اتنا شدید خطرہ ہو تو کیا کوئی اعلانیہ ہجرت کرے گا یا بالکل رازداری اور چھپ چھپا کے ؟؟ یقیناً پوری رازداری اور چھپ کر یہ کام انجام دینا ہی عقل کے مطابق ہے ۔اور اس انجام دہی کا کسی کو علم تک نہ ہونا ہی اس میں کامیاب ہونے کے مترادف ہے۔

المختصر کہ ۔۔ رسول اکرمؐ کو مکمل رازداری میں ہجرت کرنا تھی اور یہ کام دن کے وقت انجام دینا عقل کے منافی تھا کیونکہ رات کا سفر دن کے مقابلے میں محفوظ سفر ہے تاکہ کفار مکہ کی نگاہوں سے بچ کر اپنی منزل تک پہنچا جا سکے ۔اور رسول اکرم نے ایسا ہی کیا ۔ امیرالمومنین امام علیؑ کو اپنے بستر پر سلایا اور اپنی چادر ان پر ڈالی تاکہ کفار کو یہ لگے کہ رسول اپنے بستر پر ہی موجود ہیں۔ امام علیؑ کا بستر رسول پر سونا اور رسول کی امانتیں ان کے مالکان تک پہنچانا یہ سب کچھ تاریخ کی کتابوں موجود ہے جس پر کسی اہل سنت کو کوئی اعتراض نہیں اور سب نے اس کو قبول بھی کیا ہے کہ ایسا ہی ہوا تھا ۔۔

میں یہاں جان بوجھ کر کتبِ تاریخ سے عربی متن و ترجمہ پیش نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی حوالے دوں گا کیونکہ ایسا کرنا فقط تحریر کو طویل کرے گا کیونکہ ان سب معاملات پر شیعہ و سنی کو کوئی اعتراض نہیں ۔ بس مختصراً تھوڑا سا پس منظر بیان کر رہا ہوں تاکہ ذہنوں کو آمادہ کر سکوں ۔

تو یہ بات عقلی اور نقلی دونوں حوالوں سے ثابت ہو چکی کہ رسول اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنے بستر پر سلایا اور رات ہی میں سفر ہجرت کا آغاز کیا ۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ اہل سنت کے امام طبری اپنی تاریخ کی جلد 2 کے صفحہ 100 پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ، ابوبکر کے ساتھ دن کو مکہ سے نکلے ۔۔ عجیب ۔۔

جی ہاں قارئین اب دقت کریں کہ ابوبکر کی فضیلت بنانے کے غرض سے رات کو دن میں بدل دیا جبکہ عقلی طور پر یہ بات قطعاً قابل قبول نہیں کہ رسول اکرمؐ اتنا بڑا رسک دن کے وقت سفر پر نکلنے کا لیں اور اس گھرمیں جائیں جہاں ابوبکر کا بیٹا جس کا نام عبد العزى بن أبي بكر تھا جو کہ مشرکینِ مکہ کی جانب سے رسول کے تعاقب پر معمور کیا گیا تھا جس کے بارے میں تمام اہل سنت تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔ساتھ ساتھ یہ اقدام ان صحیح السند روایات کے خلاف بھی ہے جن میں رسول نے امام علی کو رات میں اپنے بستر پر سو جانے کا حکم دیا اور یہ ذمہ داری بھی لگائی کہ اے علی تم کل یہ امانتیں لوٹا کر مدینہ آجانا۔

اگر ہم یہ مان لیں کہ دن کے وقت ابوبکر کے ساتھ ہجرت کی تو اس میں لاتعداد سوالات پیدا ہو جائیں گے کیونکہ ابوبکر کا گھر مشرکین مکہ کے گھروں کے بیچ و بیچ واقع تھاتو یہ بات عقل کے منافی ہے کہ رسول جس ہجرت کو اتنا مخفی رکھنا چاہتے تھے کہ مدینہ جانے والے عام راستے کو چھوڑ کر ایسے راستےکو اختیار کیا جہاں سے کوئی بھی مکہ سے مدینہ نہیں جاتا تھا تو کیونکر وہ دن کے وقت انہی کفار کے درمیان جا کر پہلے ابوبکر کو اس کے گھر سے لیں اور پھر وہاں سے مدینہ کی جانب کوچ کریں جبکہ اسی گھر میں ابوبکر کا بیٹا عبد العزى بن أبي بكر جو کہ مسلمانوں کا شدید ترین دشمن تھا اور کفار مکہ کی طرف سے اس کام پر لگایا گیا تھا کہ وہ رسول اکرم ؐ اور ان کی اہل بیتؑ کا تعاقب کرے اور تو اور ابوبکر کی کافرہ بیوی جس کا نام ام رومان تھا جسے آیت نازل ہونے کے بعد ابوبکر نے طلاق دے دی تھی اور خود ابوبکر کا باپ ابو قحافہ بھی کافر تھا موجود ہوں؟؟؟ کیا رسول اکرمؐ ایسے گھر تشریف لے جائیں گے اور وہاں سے ہجرت کا آغاز کریں گے ؟؟ بھائی کوئی عقل ہوتی ہے او کوئی فہم ہوتا ہے ۔۔ کوئی شرم ہوتی ہے ھاھاھاھا

کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو جا کر تاریخ ابن عساکر کی جلد 13 کا صفحہ 280 ملاحظہ فرما لے یہاں کتاب سے عبارات نقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔۔۔ عجیب ہے واللہ ۔۔

چلیں اگر تھوڑی دیر کو یہ مان بھی لیں کہ رسول اپنے گھر سے نکل کر پہلے ابوبکر کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے ابوبکر کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے تو پھر ہمارے اہل سنت بھائی اس روایت کا کیا کریں گے جو اُن کے امام ابن حجر عسقلانی اپنی شہرہ آفاق کتاب فتح الباري جو کہ صحیح بخاری کی صف اول کی شرح شمار ہوتی ہے صحیح سند سے نقل کر رہے ہیں :

عربی متن:

رِوَايَةِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عِنْدَ بن حِبَّانَ فَرَكِبَا حَتَّى أَتَيَا الْغَارَ وَهُوَ ثَوْرٌ فَتَوَارَيَا فِيهِ وَذَكَرَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنِ بن شِهَابٍ قَالَ فَرَقَدَ عَلِيٌّ عَلَى فِرَاشِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَرِّي عَنْهُ وَبَاتَتْ قُرَيْشٌ تَخْتَلِفُ وَتَأْتَمِرُ أَيُّهُمْ يَهْجُمُ عَلَى صَاحِبِ الْفِرَاشِ فَيُوثِقُهُ حَتَّى أَصْبَحُوا فَإِذَا هُمْ بِعَلِيٍّ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ لَا عِلْمَ لِي فَعَلِمُوا أَنه فر مِنْهُم وَذكر بن إِسْحَاقَ نَحْوَهُ وَزَادَ أَنَّ جِبْرِيلَ أَمَرَهُ لَا يَبِيتُ عَلَى فِرَاشِهِ فَدَعَا عَلِيًّا فَأَمَرَهُ أَنْ يَبِيتَ عَلَى فِرَاشِهِ وَيُسَجَّى بِبُرْدِهِ الْأَخْضَرِ فَفَعَلَ ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْقَوْمِ وَمَعَهُ حَفْنَةٌ مِنْ تُرَابٍ فَجَعَلَ ينثرها على رؤوسهم وَهُوَ يَقْرَأُ يس إِلَى فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ وَذكر أَحْمد من حَدِيث بن عَبَّاسٍ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا الْآيَةَ قَالَ تَشَاوَرَتْ قُرَيْشٌ لَيْلَةً بِمَكَّةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا أَصْبَحَ فَأَثْبِتُوهُ بِالْوَثَاقِ يُرِيدُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلِ اقْتُلُوهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ أَخْرِجُوهُ فَأَطْلَعَ اللَّهُ نَبِيَّهُ عَلَى ذَلِكَ فَبَاتَ عَلِيٌّ عَلَى فِرَاشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَحِقَ بِالْغَارِ وَبَاتَ الْمُشْرِكُونَ يَحْرُسُونَ عَلِيًّا يَحْسِبُونَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي يَنْتَظِرُونَهُ حَتَّى يَقُومُ فَيَفْعَلُونَ بِهِ مَا اتَّفَقُوا عَلَيْهِ فَلَمَّا أَصْبَحُوا وَرَأَوْا عَلِيًّا رَدَّ اللَّهُ مَكْرَهُمْ فَقَالُوا أَيْنَ صَاحِبُكَ هَذَا قَالَ لَا أَدْرِي فاقنصوا أَثَرَهُ فَلِمَا بَلَغُوا الْجَبَلَ اخْتَلَطَ عَلَيْهِمْ فَصَعِدُوا الْجَبَلَ فَمَرُّوا بِالْغَارِ فَرَأَوْا عَلَى بَابِهِ نَسْجَ العنكبوت فَقَالُوا لَو دخل هَا هُنَا لَمْ يَكُنْ نَسْجُ الْعَنْكَبُوتِ عَلَى بَابِهِ فَمَكَثَ فِيهِ ثَلَاثَ لَيَالٍ وَذَكَرَ۔۔۔۔

ترجمہ : علیؑ ، حضرت محمدؐ کے بستر پر لیٹے تاکہ مشرکین کو لگے کہ رسولؐ اللہ لیٹے ہوئے ہیں اور رات کاٹی ، قریش نے اختلاف اور مشورے میں کہ کون حملہ کرے گا بستر والے پر اور اس کو باندھے یہاں تک کہ انہوں نے اس مشورے میں صبح کی تو ناگہاں انہوں نے دیکھا کہ وہ علیؑ ہیں۔ تو اُن سے پوچھا کہ تمہارا ساتھی کہاں ہے ؟ کہا مجھ کو نہیں معلوم! تو انہوں نے جانا کہ وہ ہم سے نکل گئے ہیں اور ابن اسحاق نے بھی یہی ذکر کیا اور مزید کہا کہ جبرائیلؑ نے رسولؐ اللہ سے کہا کہ اپنے بستر پر نہ سوئیں تو آپؐ نے علیؑ کو بلوا کر اپنے بستر پر سلایا اور اُن کو سبز چادر اوڑھائی پھر حضرتؐ باہر نکلے اور آپؐ کے ہاتھ کی مٹھی میں مٹی تھی تو آپؐ نے اس کو اُن کفاروں کے سروں پر بکھیر ا اور آپؐ سوره یاسین پڑھتے تھے (فهم لايبصرون)تک اورامام احمد نے ذکر کیا کہ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں روایت ہے کہ آیت (وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُو) کہ قریش نے ایک رات مکے میں باہم مشورہ کیا سو بعض نے کہا کہ جب صبح کریں تو ان کو بیٹریوں میں قید کرو اور بعض نے کہا کہ نہیں ان کو مار ڈالو اور بعض نے کہا کہ نہیں بلکہ ان کو وطن سے نکال دو تو اللہ نے اپنے پیغمبرؐ کو اس کی اطلاع دی تو اُس رات علیؑ ، نبیؐ کے بستر پر لیٹے اور حضرت ؐ باہر نکلے یہاں تک کہ غار میں پہنچے اور رات گزاری۔ مشرک علیؑ کی نگررانی کرتے ہوئے گمان کرتے تھے کہ یہی حضرتؐ ہیں یعنی انتظار کرتے تھے کہ اٹھیں تو ان کے ساتھ جو چاہیں کریں پھر جب فجر ہوئی تو انہوں نے علیؑ کو دیکھا اور کہا کہ تمہار ساتھی کہاں ہے ، علیؑ نے کہا مجھ کو معلوم نہیں تو انہوں نے آپؐ کے قدم کا نشان پکڑا سو جب وہ پہاڑ کے پاس پہنچے تو انہیں شبہ پڑ گیا سو وہ پہاڑ پر چڑھے اور غار پر سے گزرے اور اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر اس میں داخل ہوتے تو اس کے دروازے پر مکٹری کا جالا نہ ہوتا ۔سو نبیؐ اس غار میں تین رات ٹھہرے اور ۔۔۔۔

حوالہ ملاحظہ فرمائیں :

كتاب فتح الباري لابن حجر [ابن حجر العسقلاني]، قوله باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه إلى المدينة، جلد 7، صفحہ 236 – المكتبة الشاملة

لگے ہاتھوں اس روایت کے مزید طرق بھی نقل کر دوں تاکہ تواتر حاصل ہو جائے ۔۔

2- كتاب الدر المنثور في التفسير بالمأثور [الجلال السيوطي]جلد 4 صفحہ 51 – – المكتبة الشاملة

اس پر تخریج بھی ملاحظہ فرما لیں۔۔

تخریج : وَأخرج ابْن إِسْحَق وَابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم وَأَبُو نعيم وَالْبَيْهَقِيّ مَعًا فِي الدَّلَائِل عَن ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا

3- كتاب غاية المقصد فى زوائد المسند [نور الدين الهيثمي]جلد 3 صفحہ 227 – سورة الأنفال – المكتبة الشاملة

4- كتاب تفسير عبد الرزاق [عبد الرزاق الصنعاني]جلد 2 صفحہ 120 – سورة الأنفال – المكتبة الشام

5- كتاب مسند أحمد ط الرسالة – جلد 5 صفحہ 301 – المكتبة الشاملة

6- كتاب مشكاة المصابيح – الفصل الثالث -جلد 3ص1669 – المكتبة الشاملة

7- كتاب الروايات التفسيرية في فتح الباري [عبد المجيد الشيخ عبد الباري] جلد 1 صفحہ 500 – سورة الأنفال – المكتبة الشاملة

8- كتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح [الملا على القاري]جلد 9 صفحہ 3827 – باب في المعجزات – المكتبة الشاملة

9- كتاب دلائل النبوة لإسماعيل الأصبهاني[إسماعيل الأصبهاني] صفحہ 66 – المكتبة الشاملة

10- كتاب هداية الرواة – مع تخريج المشكاة الثاني للألباني[ابن حجر العسقلاني] جلد 5 صفحہ 353 – المكتبة الشاملة

نوٹ: امام البانی نے لکھا: أن الحديث صحيح، كما شرحته في “الصحيحة” (٢٩٣٦)

تو دیکھ لیا آپ نے ۔۔۔ اس واقعہ ہجرت کی سب سے صحیح السند روایت میں کہیں بھی ابوبکر کا نام و نشان تک نہیں اور جن جن روایات میں نام ڈالا گیا ہے ان کی اسناد میں مدلس اور جھوٹے راوی ہیں، اگر نہیں ہیں تو مجھے اہل سنت یہ ثابت کریں کہ ان روایات میں جھوٹے راوی نہیں اور اسناد میں کسی قسم کا جھول نہیں۔

جو میں نے روایت پیش کی ہے وہ روایت دلائل النبوۃ میں موجود ہے ۔ مطلب سرکارِ ختمی مرتبتؐ کی نبوت کو جن دلیلوں سے ثابت کیا جاتا ہے ان دلائل میں یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے یعنی قطعی طور پر ایک دم تگڑی سند والی روایت ۔ تبھی ملا علی قاری نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب کے بابِ معجزات النبیؐ میں درج کیا ۔

غور کریں قارئین کہ واضح ترین الفاظ میں رسول ؐ کا اپنے گھر سے نکل کر ڈائریکٹ غار جانے کا بیان ہے (وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَحِقَ بِالْغَارِ ) ایک اور نقطے کی طرف دقت کریں کہ کفار فقط رسول اکرمؐ کےقدم کے نشان سے غار تک پہنچے ، اگر ابوبکر ساتھ ہوتا تو اس کے بھی تو نشان ہوتے؟؟

تحریر کو مختصر رکھنے کا قصد نہ ہوتا تو دیگر روایات بھی پیش کرتا جن میں ٹیڑھی میڑھی قلبازیاں مار کر اہل سنت تاریخ دانوں نے ابوبکر کو یار غار بنانے کی کوشش کی ۔

خیر اب فقط بخاری مبینہ شریف سے دو روایات سے ثابت کر دیتا ہوں کہ ہجرت کے وقت رسول ؐاکیلے ہی اپنے گھر سے نکل کر غار پہنچے تھے اور ابوبکر ان کے ساتھ نہیں تھا ۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔۔

پہلی حدیث ۔۔ امام بخاری لکھتے ہیں:

حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا انس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، عن بن عمر، قال:” لما قدم المهاجرون الاولون العصبة موضع بقباء قبل مقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يؤمهم سالم مولى ابي حذيفة، وكان اكثرهم قرآنا”.

ترجمہ :

ہم سے ابراہیم بن المنذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا انہوں نے عبیداللہ عمری سے، انہوں نے نافع سے انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ

جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباء کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا۔

حوالہ : صحيح البخاري، كِتَاب الْأَذَانِ، 54. بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى:حدیث نمبر: 692

تو قارئین بخور ملاحظہ فرمائیں کہ عمر بن خطاب کے بیٹے فرما رہے ہیں کہ رسول اکرمؐ کی ہجرت سے بھی پہلے قبا کے عصبہ مقام پر اول مہاجرین کی جماعت ابوحذیفہ کے غلام کرا رہے ہیں ۔ اور یہ بھی دہان میں رکھیں کہ اس کو نافع نے نقل کیا ہے۔

اب آگے چلتے ہیں اور دوسری روایت دیکھتے ہیں ۔۔

دوسری روایت ۔۔۔ امام بخاری لکھتے ہیں :

حدثنا عثمان بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، اخبرني ابن جريج، ان نافعا اخبره، ان ابن عمر رضي الله عنهما، اخبره قال:”كان سالم مولى ابي حذيفة يؤم المهاجرين الاولين، واصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في مسجد قباء، فيهم ابو بكر، وعمر، وابو سلمة، وزيد،وعامر بن ربيعة”.

ترجمہ :

ہم سے عثمان بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں نافع نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہا کہ

ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے (آزاد کردہ غلام) سالم، سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے اصحاب کی مسجد قباء میں امامت کیا کرتے تھے۔ ان اصحاب میں ابوبکر، عمر، ابوسلمہ، زید اور عامر بن ربیعہ بھی ہوتے تھے۔

حوالہ: صحيح البخاري ، كِتَاب الْأَحْكَامِ، 25. بَابُ اسْتِقْضَاءِ الْمَوَالِي وَاسْتِعْمَالِهِمْ:حدیث نمبر: 7175

لو جی ہو گئی فاتحہ ۔۔ دوسری روایت کو بھی نافع نے روایت کیا اور اسی امام جماعت کا نام لکھا لیکن یہ کیا ۔۔ ارے ان اصحاب میں تو ابوبکر اور عمر شامل ہوتے تھے یعنی رسول اللہ کی ہجرت کرنے سے قبل ہی ابوبکر قباء میں غلامِ ابو حذیفہ کے پیچھے نماز ادا کر رہا ہے ۔۔ یہ تو کمال ہی ہوگیا ۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا

اب کوئی بھی صاحب عقل مجھے یہ سمجھا دے کہ اگر یہ روایت درست ہے جوکہ عقیدہ اہل سنت میں سو فیصد درست بھی ہے تو بھائی یہ ابوبکر عین اسی وقت غار میں کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ ابوحذیفہ کے آزاد غلام کے پیچھے مسجد قباء میں جماعت کے ساتھ نماز بھی پڑھ رہا ہے ۔۔۔ میرے بھائی آج کے جدید دور میں مسجد قباء سے غار کا فاصلہ 475 کیلو میٹر ہے , جسے اگر آج کے دور کے بہترین راستوں پر اگر پیدل طے کریں تو 117 گھنٹے یعنی پورے لگ بھگ 5 دن بنتے ہیں (اور اس وقت کے راستوں کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں) ۔۔ ھاھاھاھا جا کر کم از کم گوگل میپ ہی دیکھ لو۔۔

چلیں جی اب بات ہو جائے قرآن میں موجود سوره توبہ کی 40 آیت جو آیت غار سے مشہور ہے۔ جس پر میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ اس پر قرآنیات سے بحث عام عوام کے لئے کافی مشکل ہو جائے گی تو فقط امی عائشہ کا ایک فرمان نقل کر کے اور وہ بھی کسی معمولی کتاب سے نہیں بلکہ اہل سنت کے ہاں قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب یعنی صحیح بخاری سے پیش کر کے امی عائشہ کے ابو جی کو اس آیت کجا پورے قرآن سے ہی باہر کروا دیتے ہیں ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔۔

امام بخاری بھائی جھوم کر صحیح بخاری کے کتاب تفسیر میں لکھتے ہیں ۔۔

فقالت عائشة من وراء الحجاب:” ما انزل الله فينا شيئا من القرآن إلا ان الله انزل عذري

ترجمہ :

عائشہ نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی سوائے اس کے کہ اللہ نے میرا عذر نازل کیا۔

حوالہ : صحيح البخاري، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، حدیث نمبر: 4827

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ یار میں کیا کروں اب ۔۔ مجھے یار غار پر ہی ہنسی آ رہی ہے ۔۔

انشاء اللہ زندگی رہی اور توفیق شامل حال رہی تو اہل سنت کی ہی کتابوں سے یہ پیش کروں گا کہ وہ کون صاحب تھے جو کفار کی جانب سے رسول پر نظر رکھے ہوئے تھے اور نبی کی مخبری جا کرمشرکین مکہ سے کرتے رہے۔۔

معذرت ۔۔ غیر ارادی طور پر تحریر بالآخر طویل ہو ہی گی۔۔

اس زحمت پر مومنین مجھے معاف فرمائیں

والسلام، کلبِ درِ اہل بیتؑ

احقر #ابوعبداللہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *