Tareekh e Kufa | تاریخِ کوفہ

تاریخ انسانی میں صدیوں سے لوگوں میں ایک ایسا طبقہ موجود رہا ہے جسے اُس زمانے میں مورخ اور آج کے دور میں صحافی یا journalist کہتے ہیں اِن لوگوں کے قلم میں وہ طاقت ہوتی ہے جو کسی سائنسدان کے ایٹم بم میں بھی نہیں ہوتی۔

اگر یہ اٙپنے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ منوانا چاہیں تو دو چار آدمیوں کو نہیں نسلوں کو قائل کر لیتے ہیں ۔اور اٙپنی تحریر میں اٙیسا سحر پیدا کر دیتے ہیں کہ قاری دوسری طرف دیکھنے کا تصوّر بھی نہیں کرتا ۔آج سے ساڑھےچودہ سو سال پہلے کے مورخوں نے شہر کوفہ اور اہلیان کوفہ کے بارے میں تاریخ کے کینوس پر جو تصویر پینٹ کی ہے آج ہم وہ تصویر آپ کو اُلٹا کر دکھانے والے ہیں۔

اس تصویر میں کوفہ شہر کے لیے عنوان شہر خموشاں یعنی قبرستان اور اہلیان کوفہ کے لیے (کوفی لا یوفی) کی اِصطلاح مشہور کی گئی جس کا معنی ہے کہ کوفی کبھی وفا نہیں کرتے ۔جب آپ تاریخ کے کسی مشہور واقع کی حقیقت و اٙصلیت کو جاننا چاہیں تو آپ کو اِس کے خلاف لکھا ہوا نہیں ملے گا کیونکہ لکھنے والوں نے تو جو کچھ لکھنا تھا اور جو مشہور کرنا تھا وہ کر دیا ۔ اٙب اِس کی حقیقت کو جاننے کے لیےجب آپ اُسی لکھے ہوئے کو اُلٹا کر دیکھیں گے تو تصویر کے اٙصل خال و خد واضح ہونے لگیں گے۔

یہاں تک تمہید ختم ہوئی۔ اٙب ہم آپنے حرف مطلب کی طرف آتے ہیں ۔ میرا پہلا سوال کہ کیا حسین اِبن علی علیہ السلام کا عمومی معاشرتی رویہ اہلیان مدینہ سے اچھا نہیں تھا؟ ۔کیا آپ تندخو اور جھگڑالو طبیعت کے مالک تھے؟ ۔یا نعوذ باللہ کوئی اٙیسا ناپسندیدہ کردار تھے جس سے عمومی طور پر لوگ نفرت کرتے ہیں ؟۔اگر آپ یہی سوال اٙپنے ضمیر سے کریں تو یقینا اندر سے اِس کا جواب نفی میں ائے گا۔

اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ میرے اِس سوال سے آپ کو ذہنی اور قلبی تکلیف محسوس ہوئی ہوگی ۔اہلیان مدینہ یہ جانتے تھے کہ حسین اِبن علی جیسا کریم النفس اِنسان اِس زمانے میں اُن کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ۔مدینے میں اُس وقت تک وہ لوگ زندہ تھے جنہوں نے حسین اِبن علیؑ کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے سے لپٹا ہوا دیکھا تھا۔ جنہوں نے مولا حسین علیہ السلام کو زبان رسالت چوستے ہوئے دیکھا تھا۔

مدینے میں اُس وقت تک وہ لوگ باقی تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مولا حسین علیہ السلام کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ لوگ کیسے حسین ابن علی علیہ السلام سے نفرت کر سکتے تھے ۔جب یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یقیناً اٙیسا ہی تھا ۔تو میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ پھر اٙیسا کیا ہوا کہ جب حسین اِبن علی علیہ السلام خاندان بنو ہاشم کے چند اٙفراد کو ساتھ لے کر اِنتہائی بیکسی اور بے بسی کے عالم میں وطن عزیز کو چھوڑ رہے تھے تو مدینے کا ہنستا بستا شہر شہرِخموشاں میں بدل گیا کسی کا اِمام علیہ السلام کے ساتھ نکلنا تو دور کی بات کسی نے صدائے اِحتجاج بھی بلند نہ کی۔آخر کیا وجہ بنی کہ جنہوں نے رسول خدا کے ساتھ باقاعدہ عہد وفا کیا تھا اُن وفاداروں نے آپنے عہد سے ہاتھ اُٹھا لیا۔

کیا کسی میں ہمت ہے کہ وہ اِس بات کا اِنکار کرے کہ مدینہ سے نکلتے ہوئے اِمام علیہ السلام کے ساتھ آپنے خاندان کے اٙفراد اور چند ایک غلاموں کے علاوہ کوئی نہیں تھا ۔ تو اِس خاموشی کی وجہ سوائے اِس کے کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی کہ یزید نے والی مدینہ کو یہ خط لکھا کہ حسین اِبن علی علیہ السلام سے میری بیعت طلب کرو اگر بیعت کر لیں تو ٹھیک اگر اِنکار کریں تو ممکن ہو تو وہیں قتل کر دو اگر اٙیسا کرنا ممکن نہ ہو تو اُنہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کرو

اِس کے علاوہ اگر اہلیان مدینہ میں سے کوئی نواسہ رسول کا ساتھ دے یا اُن کے حق میں زبان کھولے تو اُن کا گھر مسمار کر دو اور مرد و زن کو ذلیل و رُسوا کرو اور بے دریغ قتل کرو ۔جیسے ہی یہ دھمکی آمیز پیغام مدینے پہنچا تو سنتے ہی لوگوں کے اٙوسان خطا ہو گئے اور ہنستا بستا شہر شہرِ خموشاں میں بدل گیا ۔ صرف اور صرف یہی ایک وجہ تھی کہ نہ کوئی نواسہ رسول کی نصرت میں شہر سے نکلا اور نہ ہی کسی نے اُن کے حق میں زبان ہی کھولی ۔ اٙیسے ہوتے ہیں شہر خموشاں۔ اگر کسی کے پاس اِسکے سِوا کوئی وجہ ہے تو بتائے۔

یہ تھا اُلٹی تصویر کا اٙدھا حصہ ۔اٙب دوسرے حصے میں کوفہ جو کہ کربلا کا قریب ترین شہر تھا اور بجا طور پر اِس میں محبان اہل بیت کی تعداد بہت زیادہ تھی یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنہوں نے بیشمار خط مولا حسین علیہ السلام کو لکھے ۔جب یزید کو یہ خبر ملی کہ حسین علیہ السلام مکہ سے کوفہ کی طرف عازمِ سفر ہیں۔

تو اُس نے نعمان بن بشیر والی کوفہ کو معزول کر دیا کیونکہ وہ فطرتاً سخت گیر اِنسان نہیں تھا اور اُس کی جگہ بصرہ سے عبید اللّٰہ اِبن زیاد علیہ لعن کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا ۔ اِبن زیاد نے کوفہ کے دارالامارہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جنابِ حُر بن یزید الریاحی کی قیادت میں ایک دٙستہ روانہ کیا جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے سے روکے۔

اور دوسرے کام کی صورت میں کوفہ والوں کو اِبن زیاد نے وہ دھمکی آمیز تحریر سنائی نہیں بلکہ اُس پر تیزی سے عمل شروع کر دیا ۔سب سے پہلے سفیر حسین علیہ السلام حضرت امیر مسلمؑ اور جنہوں نے اُنہیں پناہ دی تھی حضرتِ ہانی بن عروہ کو قتل کیا اِن دونوں شہیدوں کے سروں کو کوفہ کے داخلی دروازے پر لٹکا دیا اور دونوں کے جسد پاک کو خوف پھیلانے کے لیے گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر کوفے کی گلیوں میں گھسیٹا۔

ہر وہ گھر توڑ دیا جس سے محبتِ اہلبیت کی خوشبو آئی اہل خانہ کو سر بازار رُسوا کیا اور قتل کیا ۔ خوف اور دہشت پھیلانے والے ہرکارے کسی عفریت کی طرح رات دن گلیوں میں گھومتے تھے ۔ یہاں تک کہ امیر مسلمؑ کے پانچ اور سات سال کے دو معصوم شہزادوں کو حارث نامی ملعون اللّٰہ کی لعنت ہو اُس شقی القلب پر ساری رات ستون کے ساتھ باندھ کے رکھا اور صبح سویرے دریا کے کنارے لا کر قتل کردیا۔

ایسے حالات میں نصرتِ امامؑ کی خاطر کوفہ سے کربلا پہنچنا بھی آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف تھا ۔ کیونکہ کوفہ سے نکلتے ہی کربلا تک وسیع و عریض صحرا تھا۔اِبن زیاد کے ہرکارے اُس صحرا میں کتوں کی طرح اِنسانی بو سونگھتے پھرتے تھے۔

لہذا اُن کی نگاہ سے بچ کر یہ صحرا عبور کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ پھر بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں بنو ہاشم اور چار پانچ دیگر اٙفراد کے جو مختلف علاقوں سے آئے تھے باقی تمام کوفہ کے لوگ ہیں شہدا کے اِسمائے گرامی کی فہرست شیعہ سُنی کتب میں موجود ہے اگر آپ اُن کی سکونت معلوم کریں گے تو بنو ہاشم کے علاوہ لوگوں میں 95% کوفہ کے لوگ ہیں ۔کوفیوں نے وفا اور شجاعت کی جو تاریخ آپنے خون سے کربلا کی ریت پر لکھی ہے قیامت تک ظلم و اِستبداد کی تیز آندھیاں اُسے مٹا نہیں سکتیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے چند نام یہاں درج کرتے ہیں

حر بن یزید ریاحی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
علی بن حر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
حجر بن حر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
مصب بن یزید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
قرة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
ابو صمامہ بن صیداوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
حبیب ابنِ مظاہر اسدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
ضرغام بن مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
عبدالرحمن بن عبداللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
عمرو بن خالد اسدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
سعد غلام خالد اسدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
مجمع بن عبداللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
عائذ بن مجمع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
جنادہ بن حرث۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
واضح الترکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
عمرو بن عبداللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
حلاس بن عمرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
الحجاج بن بدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بصرہ
عبداللہ بن عمیر الکلبی ۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
واہب بن عبداللہ کلبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ
بریر بن خضیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوفہ

دوسری طرف قاتلان امام حسین علیہ السلام میں مشہور صحابہ کرام کی اولاد شامل تھیں ۔مثلا واقعہ کربلا کا سرخیل عمر ابن سعد ۔ سعد بن ابی وقاص صحابی رسولؐ کا بیٹا ۔ سنان بن انس ۔ انس بن مالک صحابی رسولؐ کا بیٹا حصین بن نمیر خودصحابی ۔ شمر زوالجوشن ۔ شرجیل بن عور صحابی رسول کا بیٹا ۔ یہ وہ نام ہیں جو کبائر میں شمار ہوتے ہیں چھوٹے موٹے بہت زیادہ تھے ۔جن کے باپ بطور صحابی تاریخ میں شہرت نہیں رکھتے۔

المختصر

وہ تمام بددیانت مورخ مٹی میں مل گئے لیکن کوفہ والوں کی تاریخِ وفا زندہ ہے ۔لہذا کوفیوں کے بارے میں یہ negative perception یعنی منفی رائے رکھنا اُن کے ساتھ زیادتی ہے ۔ بلکہ میرے نزدیک گناہ ہے۔
آخری بات کہ جب یہ عظیم سانحہ ہو چکا اور ظلم کی سیاہ رات ختم ہوئی تو کوفہ کے لوگوں کی اٙکثریت پاگلوں کی طرح گلیوں میں خاک اُڑاتے اور سردُھنتے اور ایک ہی بات کہتے کہ واہے ہو ہم پر ہم سے گناہِ عظیم سرزد ہوگیا۔

ہم خوف کے بُت کے سامنے جُھک گئے اور خلیفة اللّٰہ کو تنہا چھوڑ دیا ۔ یہ لوگ تاریخ کی کتابوں میں توابین کے نام سے مشہور ہوئے ۔ لیکن پوری اُمتِ مُسلمہ بشمول مکہ اور مدینہ توبہ تو دور کی بات ندامت تک کا اظہار نہیں کیا ۔ بلکہ آج تک اُنہیں کی اولادیں یزید کو اِس گناہِ عظیم سے بری الزِّمہ قرار دیتے نظر آتے ہیں ۔ (وٙمٙا عٙلٙینٙا اِلّٙا البٙلٙاغ)

تحریر : زوار مختار حسین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *